Orhan

Add To collaction

محبت نہیں عشق یے

محبت نہیں عشق یے
از قلم این این ایم
قسط نمبر8

اب طاہر صاحب کی حالت پہلے سے بہتر تھی مگر وہ مسلسل رو رہے تھی حدیب نے ایسا کیوں کیا اگر شادی نہیں کرنی تھی میری بیٹی سے تو پہلے بتا دیتا ایسے سرعام بے آبرو کرنے کی کیا ضرورت تھی طاہر صاحب مسلسل  یہی کہہ رہے تھی اور انور صاحب خاموشی سے بیٹھے اپنے بیٹے کی حرکت پر شرمندہ تھے کہ ا اچانک درواذہ نوک ہوا آجائیں انور صاحب نے کہا ۔ آپ یہاں کیسے انور صاحب حسیب کمال کو یہاں دیکھ کر اپنی کرسی سے کھڑے ہوئے تھے ۔ انکل آپ بیٹھیئے مجھے بتائیے کیا بات ہے اور یہ آپکے بھائ رو  کیوں رہے ہیں سب مہمان دلہے  اور دلہن کا  انتظار کر رہے ہیں مجھسے انتظار نہیں ہوا تو میں اندر اا گیا آپ مجھ پہ یقین کر سکتے ہو حسیب کمال کے لہجے میں بے پناہ ہمدردی تھی بیٹا کیا بتاؤں  میرا بیٹا پتہ نہیں کہاں ہے آج شادی ہے اسکی سارے مہمان اا چکے ہیں ماہروش نے رو رو کر برا حال کر دیا ہے اتنے سالوں میں کمائ ہوئ عزت سب بر باد ہو گئ انور صاحب روتے ہوئے بتا رہے تھے صرف عزت ہی نہیں مںیری بیٹی کی زندگی بھی برباد  ہو گئ اب کون کرے گا میری بیٹی سے شادی انور صاحب کی بات ختم ہوتے ہی طاہر صاحب بولے تھے میں کرونگا حسیب نے سوچتے ہوئے کہا تم مگر تم انور صاحب کچھ بولنے لگے تھے  کے حسیب نے انھیں روکا اپ نے مجھے بیٹا کہا  ہے اب آپ اپنے بیٹے کی بات ٹال نہی سکتے اور ایسے وقت میں اپنے ہی اپنوں کے کام آتے ہیں کیا کہتے ہو طاہر انور صاحب نے طاہر صاحب سے پوچھا میں تو یہ سوچ رہا ہوں کیا دنیا میں ایسے لوگ ہو تے ہیں مجھے اس بات سے کوئ اعتراض نہیں  طاہر صاحب بولے انور صاحب کو اپنی عزت بچتی ہوئ محسوس ہوئی 
0=00=000=====
ماہروش جلدی اٹھو  تمہارا نکاح ہے طاہر صاحب حدیب کے کمرے میں آئے تھے جہاں ماہروش بیٹھی رو رہی تھی کیا حدیب ااگئے مجھے پتہ تھا حدیب ضرور اا ئیں گے وہ صرف مجھے تنگ کرتے ہیں میں ان سے بات نہیں کروں گی لیکن بعد میں معاف بھی کردونگی میں ان سے زیادہ دیر ناراض نہیں رہ سکتی وہ خوشی سے اپنے باپ کے گلے لگ کر بول رہی تھی دیکھیں میں نے اپنی حالت کیا کر لی آپ جائیں میں اور طائی جان اا رہیں ہیں اس کی بات سن کر  طاہر صاحب چلے گئے 
======00=====
طائی  جان چلیں حدیب میرا انتظار کر رہے ہوں گے ماہروش بے چینی سے بولی تھی طائی جان نے اسکا بڑا سا گھوگٹ نکالا اور اسے نیچے لے گئی ۔ طائی جان  وہاں کا منظر دیکھ کر حیران رہ گئی اور ساکت ہو گئی اور سب سمجھ گئی طاہر صاحب آگے بڑھے اور ماہروش کو حسیب کے ساتھ بیٹھا دیا  اور قاضی صاحب نے نکاح شروع کر دیا جب قاضی نے حدیب کی جگہ حسیب کا نام بولا تو ماہروش نے اپنا گھوگٹ اٹھا کر قاضی صاحب کو ٹوکا  لیکن قاضی صاحب نے پھر حسیب کا نام لیا یہ کیا ہو  رہا ہے کوئ کچھ بولتا کیوں نہیں ماہروش گھوگٹ میں بیٹھی سوچ رہی تھی ماہروش نے گھوگٹ اٹھا کر ساتھ بیٹھے شخص کو دیکھا اور فق رہ گئ اس نے حیرانی سے اپنے باپ کو دیکھا طاہر صاحب نظریں چرا گئے اور پھر تمام مہمانوں کو دیکھا اور اپنے  باپ کی عزت کی خاطر اسے نکاح کرنا پڑا

   1
0 Comments